دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا

دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا

جان مشتاق کے پیدا ہوئے خواہاں کیا کیا

آفتیں ڈھاتی ہے وہ نرگس فتاں کیا کیا

داغ دیتی ہے مجھے گردش دوراں کیا کیا

پھر سکی میرے گلے پر نہ چھری ہے ظالم

ورنہ گردوں سے ہوئے کار نمایاں کیا کیا

حسن میں پہلوئے خورشید مگر دابے گا

دور کھنچتا ہے ہمارا مہ تاباں کیا کیا

روئے دلبر کی صفا سے تھا بڑا ہی دعویٰ

سامنے ہو کے ہوا آئنہ حیراں کیا کیا

آنکھیں گیسو کے تصور میں رہا کرتی ہیں بند

لطف دکھلاتا ہے یہ خواب پریشاں کیا کیا

گردش چشم دکھاتا ہے کبھی گردش جام

میری تدبیر میں پھرتا ہے یہ دوراں کیا کیا

چشم بینا بھی عطا کی دل آگہ بھی دیا

میرے اللہ نے مجھ پر کئے احساں کیا کیا

دوست نے جب نہ دم ذبح سسکتا چھوڑا

میرے دشمن ہوئے ہنس ہنس کے پشیماں کیا کیا

گردش نرگس فتاں نے تو دیوانہ کیا

دیکھو جھنکوائے کنوئیں چاہ زنخداں کیا کیا

جل گیا آگ میں آپ اپنے میں مانند چنار

پیستے رہ گئے دانت ارہ و سوہاں کیا کیا

کچھ کہے کوئی میں منہ دیکھ کے رہ جاتا ہوں

کم دماغی نے کیا ہے مجھے حیراں کیا کیا

گرم ہرگز نہ ہوا پہلوئے خالی بے یار

یاد آوے گی مجھے فصل زمستاں کیا کیا

کوئی مردود خلائق نہیں مجھ سا آتشؔ

کیا کہوں کہتے ہیں ہندو و مسلماں کیا کیا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR