یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے

یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے

زمیں یاں کی چہارم آسماں ہے

خدا پنہاں ہے عالم آشکارا

نہاں ہے گنج ویرانہ عیاں ہے

دل روشن ہے روشن گر کی منزل

یہ آئینہ سکندر کا مکاں ہے

تکلف سے بری ہے حسن ذاتی

قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے

پسیجے گا کبھی تو دل کسی کا

ہمیشہ اپنی آہوں کا دھواں ہے

برنگ بو ہوں گلشن میں میں بلبل

بغل غنچے کے میرا آشیاں ہے

شگفتہ رہتی ہے خاطر ہمیشہ

قناعت بھی بہار بے خزاں ہے

چمن کی سیر پر ہوتا ہے جھگڑا

کمر میری ہے دست باغباں ہے

بہت آتا ہے یاد اے صبر مسکیں

خدا خوش رکھے تجھ کو تو جہاں ہے

الٰہی ایک دل کس کس کو دوں میں

ہزاروں بت ہیں یاں ہندوستاں ہے

یقیں ہوتا ہے خوشبوئی سے اس کے

کسی گل رو کا غنچہ عطرداں ہے

وطن میں اپنے اہل شوق کی طرح

سفر میں روز و شب ریگ رواں ہے

سحر ہووے کہیں شبنم کرے کوچ

گل و بلبل کا دریا درمیاں ہے

سعادت مند قسمت پر ہیں شاکر

ہما کو مغز بادام استخواں ہے

دل بے تاب جو اس میں گرے ہیں

ذقن جاناں کا پارہ کا کنواں ہے

جرس کے ساتھ دل رہتے ہیں نالاں

مرے یوسف کا عاشق کارواں ہے

نہ کہہ رندوں کو حرف سخت واعظ

درشت اہل جہنم کی زباں ہے

قد محبوب کو شاعر کہیں سرو

قیامت کا یہ اے آتشؔ نشاں ہے
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR