حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا

حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا

نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا

اسیر اے دوست تیرے عاشق و معشوق دونوں ہیں

گرفتار آہنی زنجیر کا یہ وہ طلائی کا

تعلق روح سے مجھ کو جسد کا نا گوارا ہے

زمانے میں چلن ہے چار دن کی آشنائی کا

فراق یار میں مر مر کے آخر زندگانی کے

رہا صدمہ ہمیشہ روح و قالب کی جدائی کا

ہوئی منظور محتاجی نہ تجھ کو اپنی سائل کی

بنایا کاسۂ سر واژگوں کاسہ گدائی کا

نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو

کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے جدائی کا

وصال یار کا وعدہ ہے فردائے قیامت پر

یقیں مجھ کو نہیں ہے گور تک اپنی رسائی کا

بھروسہ آہ پر ہرگز نہیں اے یار عاشق کو

شکار اب تک کہیں دیکھا نہیں تیر ہوائی کا

دکھایا حسن سے اعجاز موسی کلک قدرت نے

ید بیضا بنایا چور انگشت حنائی کا

نہیں مٹتی ہے پتھر کی لکیر احباب کہتے ہیں

رہے گا پائے بت پر نقش اپنی جبہہ سائی کا

شکست خاطر احباب ہوتی ہے درست اس سے

توجہ میں تری اے یار اثر ہے مومیائی کا

دل اپنا آئینہ سا صاف عشق پاک رکھتا ہے

تماشا دیکھتا ہے حسن اس میں خود نمائی کا

کف افسوس ملواتی ہے تیری پاک دامانی

پنہا کر شاہد عصمت کو جامہ پارسائی کا

نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتشؔ نے

بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR