فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا

فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا

خدا کی یاد بھولا شیخ بت سے برہمن بگڑا

قبائے گل کو پھاڑا جب مرا گل پیرہن بگڑا

بن آئی کچھ نہ غنچے سے جو وہ غنچہ دہن بگڑا

نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخم شہیداں کا

تری تلوار کا منہ کچھ نہ کچھ اے تیغ زن بگڑا

تکلف کیا جو کھوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو

جو تھی غیرت تو پھر خسرو سے ہوتا کوہ کن بگڑا

کسی چشم سیہ کا جب ہوا ثابت میں دیوانہ

تو مجھ سے سست ہاتھی کی طرح جنگلی ہرن بگڑا

اثر اکسیر کا یمن قدم سے تیری پایا ہے

جذامی خاک رہ مل کر بناتے ہیں بدن بگڑا

تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں

چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا

زوال حسن کھلواتا ہے میوے کی قسم مجھ سے

لگایا داغ خط نے آن کر سیب ذقن بگڑا

رخ سادہ نہیں اس شوخ کا نقش عداوت سے

نظر آتے ہی آپس میں ہر اہل انجمن بگڑا

جو بد خو طفل اشک اے چشم تر ہیں دیکھنا اک دن

گھروندے کی طرح سے گنبد چرخ کہن بگڑا

صف مژگاں کی جنبش کا کیا اقبال نے کشتہ

شہیدوں کے ہوئے سالار جب ہم سے تمن بگڑا

کسی کی جب کوئی تقلید کرتا ہے میں روتا ہوں

ہنسا گل کی طرح غنچہ جہاں اس کا دہن بگڑا

کمال دوستی اندیشۂ دشمن نہیں رکھتا

کسی بھونرے سے کس دن کوئی مار یاثمن بگڑا

رہی نفرت ہمیشہ داغ عریانی کو پھائے سے

ہوا جب قطع جامہ پر ہمارے پیرہن بگڑا

رگڑوائیں یہ مجھ سے ایڑیاں غربت میں وحشت نے

ہوا مسدود رستہ جادۂ راہ وطن بگڑا

کہا بلبل نے جب توڑا گل سوسن کو گلچیں نے

الٰہی خیر کیجو نیل رخسار چمن بگڑا

ارادہ میرے کھانے کا نہ اے زاغ و زغن کیجو

وہ کشتہ ہوں جسے سونگھے سے کتوں کا بدن بگڑا

امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک

نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا

جہاں خالی نہیں رہتا کبھی ایذا دہندوں سے

ہوا ناسور نو پیدا اگر زخم کہن بگڑا

تونگر تھا بنی تھی جب تک اس محبوب عالم سے

میں مفلس ہو گیا جس روز سے وہ سیم تن بگڑا

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

بناوٹ کیف مے سے کھل گئی اس شوخ کی آتشؔ

لگا کر منہ سے پیمانے کو وہ پیماں شکن بگڑا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR