وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم

وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم

نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم

ساکن ہیں جوش اشک سے آب رواں میں ہم

رہتے ہیں مثل مردم آبی جہاں میں ہم

شیدائے روئے گل نہ تو شیدائے قد سرو

صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم

نکلی لبوں سے آہ کہ گردوں نشانہ تھا

گویا کہ تیر جوڑے ہوئے تھے کماں میں ہم

آلودۂ گناہ ہے اپنا ریاض بھی

شب کاٹتے ہیں جاگ کے مغ کی دکاں میں ہم

ہمت پس از فنا سبب ذکر خیر ہے

مردوں کا نام سنتے ہیں ہر داستاں میں ہم

ساقی ہے یار ماہ لقا ہے شراب ہے

اب بادشاہ وقت ہیں اپنے مکاں میں ہم

نیرنگ روزگار سے ایمن ہیں شکل سرو

رکھتے ہیں ایک حال بہار و خزاں میں ہم

دنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے

حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم

پیدا ہوا ہے اپنے لیے بوریائے فقر

یہ نیستاں ہے شیر ہیں اس نیستاں میں ہم

خواہاں کوئی نہیں تو کچھ اس کا عجب نہیں

جنس گراں بہا ہیں فلک کی دکاں میں ہم

لکھا ہے کس کے خنجر مژگاں کا اس نے وصف

اک زخم دیکھتے ہیں قلم کی زباں میں ہم

کیا حال ہے کسی نے نہ پوچھا ہزار حیف

نالاں رہے جرس کی طرح کارواں میں ہم

آیا ہے یار فاتحہ پڑھنے کو قبر پر

بیدار بخت خفتہ ہے خواب گراں میں ہم

شاگرد طرز خندہ زنی میں ہے گل ترا

استاد عندلیب ہیں سوز و فغاں میں ہم

باغ جہاں کو یاد کریں گے عدم میں کیا

کنج قفس سے تنگ رہے آشیاں میں ہم

اللہ رے بے قرارئ دل ہجر یار میں

گاہے زمیں میں تھے تو گہے آسماں میں ہم

دروازہ بند رکھتے ہیں مثل حباب بحر

قفل درون خانہ ہیں اپنے مکاں میں ہم

آتشؔ سخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی

مقدور ہو تو قفل لگا دیں زباں میں ہم
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR