طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا

طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا

اندھیر گیسوئے سیہ یار نے کیا

گل سے جو سامنا ترے رخسار نے کیا

مژگاں نے وہ کیا کہ جو کچھ خار نے کیا

ناز و ادا کو ترک مرے یار نے کیا

غمزہ نیا یہ ترک ستم گار نے کیا

افشاں سے کشتہ ابروئے خم دار نے کیا

جوہر سے کام یار کی تلوار نے کیا

قامت تری دلیل قیامت کی ہو گئی

کام آفتاب حشر کا رخسار نے کیا

میری نگہ کے رشک سے روزن کو جان دی

رخنہ یہ قصر یار کی دیوار نے کیا

سودائے زلف میں مجھے آیا خیال رخ

مشتاق روشنی کا شب تار نے کیا

حسرت ہی بوسۂ لب شیریں کی رہ گئی

میٹھا نہ منہ کو تیرے نمک خوار نے کیا

فرصت ملی نہ گریہ سے اک لحظہ عشق میں

پانی مرے لہو کو اس آزار نے کیا

سیماب کی طرح سے شگفتہ ہوا مزاج

اکسیر مجھ کو میرے خریدار نے کیا

قد میں تو کر چکا تھا وہ احمق برابری

مجبور سرو کو تری رفتار نے کیا

حیرت سے پا بہ گل ہوئے روزن کو دیکھ کر

دیوار ہم کو یار کی دیوار نے کیا

پتھر کے آگے سجدہ کیا تو نے برہمن

کافر تجھے ترے بت پندار نے کیا

کاوش مژہ نے کی رخ دلبر کی دید میں

پائے نگاہ سے بھی خلش خار نے کیا

عاشق کی طرح میں جو لگا کرنے بندگی

آزاد داغ دے کے خریدار نے کیا

اعجاز کا عجب لب جاں بخش سے نہیں

پیغمبر اس کو مصحف رخسار نے کیا

طرہ کی طرح سے دل عاشق کو پیچ میں

کس کس لپیٹ سے تری دستار نے کیا

آنکھوں کو بند کر کے تصور میں باغ کے

گلشن قفس کو مرغ گرفتار نے کیا

نالاں ہوا میں اس رخ رنگیں کو دیکھ کر

بلبل مجھے نظارۂ گل زار نے کیا

ہکلا کے مجھ سے بات جو اس دل ربا نے کی

کس حسن سے ادا اسے تکرار نے کیا

الٹا ادھر نقاب تو پردے پڑے ادھر

آنکھوں کو بند جلوۂ دیدار نے کیا

لذت کو ترک کر تو ہو دنیا کا رنج دور

پرہیز بھی دوا ہے جو بیمار نے کیا

ناصاف آئینہ ہو تو بد تر ہے سنگ سے

روشن یہ حال ہم کو جلاکار نے کیا

حلقہ کی ناف یار کے تعریف کیا کروں

گول ایسا دائرہ نہیں پرکار نے کیا

دیوان حسن یار کی آتشؔ جو سیر کی

دیوانہ بیت ابروئے خم دار نے کیا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR