صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی

صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی

دیدار یار سی بھی دولت نہیں ہے کوئی

آنکھوں کو کھول اگر تو دیدار کا ہے بھوکا

چودہ طبق سے باہر نعمت نہیں ہے کوئی

ثابت ترے دہن کو کیا منطقی کریں گے

ایسی دلیل ایسی حجت نہیں ہے کوئی

یہ کیا سمجھ کے کڑوے ہوتے ہیں آپ ہم سے

پی جائے گا کسی کو شربت نہیں ہے کوئی

میں نے کہا کبھی تو تشریف لاؤ بولے

معذور رکھیے وقت فرصت نہیں ہے کوئی

ہم کیا کہیں کسی سے کیا ہے طریق اپنا

مذہب نہیں ہے کوئی ملت نہیں ہے کوئی

دل لے کے جان کے بھی سائل جو ہو تو حاضر

حاضر جو کچھ ہے اس میں حجت نہیں ہے کوئی

ہم شاعروں کا حلقہ حلقہ ہے عارفوں کا

نا آشنائے معنی صورت نہیں ہے کوئی

دیوانوں سے ہے اپنے یہ قول اس پری کا

خاکی و آتشی سے نسبت نہیں ہے کوئی

ہژدہ ہزار عالم دم بھر رہا ہے تیرا

تجھ کو نہ چاہے ایسی خلقت نہیں ہے کوئی

نازاں نہ حسن پر ہو مہماں ہے چار دن کا

بے اعتبار ایسی دولت نہیں ہے کوئی

جاں سے عزیز دل کو رکھتا ہوں آدمی ہوں

کیوں کر کہوں میں مجھ کو حسرت نہیں ہے کوئی

یوں بد کہا کرو تم یوں مال کچھ نہ سمجھو

ہم سا بھی خیر خواہ دولت نہیں ہے کوئی

میں پانچ وقت سجدہ کرتا ہوں اس صنم کو

مجھ کو بھی ایسی ویسی خدمت نہیں ہے کوئی

ما و شما کہہ و مہ کرتا ہے ذکر تیرا

اس داستاں سے خالی صحبت نہیں ہے کوئی

شہر بتاں ہے آتشؔ اللہ کو کرو یاد

کس کو پکارتے ہو حضرت نہیں ہے کوئی
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR