اس وسعت کلام سے جی تنگ آ گیا

اس وسعت کلام سے جی تنگ آ گیا

ناصح تو میری جان نہ لے دل گیا گیا

ضد سے وہ پھر رقیب کے گھر میں چلا گیا

اے رشک میری جان گئی تیرا کیا گیا

یہ ضعف ہے تو دم سے بھی کب تک چلا گیا

خود رفتگی کے صدمے سے مجھ کو غش آ گیا

کیا پوچھتا ہے تلخی الفت میں پند کو

ایسی تو لذتیں ہیں کہ تو جان کھا گیا

کچھ آنکھ بند ہوتے ہی آنکھیں سی کھل گئیں

جی اک بلائے جان تھا اچھا ہوا گیا

آنکھیں جو ڈھونڈتی تھیں نگہ ہائے التفات

گم ہونا دل کا وہ مری نظروں سے پا گیا

بوئے سمن سے شاد تھے اغیار بے تمیز

اس گل کو اعتبار نسیم و صبا گیا

آہ سحر ہماری فلک سے پھری نہ ہو

کیسی ہوا چلی یہ کہ جی سنسنا گیا

آتی نہیں بلائے شب غم نگاہ میں

کس مہروش کا جلوہ نظر میں سما گیا

اے جذب دل نہ تھم کہ نہ ٹھہرا وہ شعلہ رو

آیا تو گرم گرم ولیکن جلا گیا

مجھ خانماں خراب کا لکھا کہ جان کر

وہ نامہ غیر کا مرے گھر میں گرا گیا

مہندی ملے گا پانوں سے دشمن تو آن کر

کیوں میرے تفتہ سینے کو ٹھوکر لگا گیا

بوسہ صنم کی آنکھ کا لیتے ہی جان دی

مومنؔ کو یاد کیا حجر الاسود آ گیا
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR