اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو

اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو

زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو

لکھو سلام غیر کے خط میں غلام کو

بندے کا بس سلام ہے ایسے سلام کو

اب شور ہے مثال جو دی اس خرام کو

یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو

آتا ہے بہر قتل وہ دور اے ہجوم یاس

گھبرا نہ جائے دیکھ کہیں ازدحام کو

گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے

مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو

یاں وصل ہے تلافی ہجراں میں اے فلک

کیوں سوچتا ہے تازہ ستم انتقام کو

تیرے سمند ناز کی بے جا شرارتیں

کرتے ہیں آگ نالۂ اندیشہ کام کو

گریے پہ میرے زندہ دلو ہنستے کیا ہو آہ

روتا ہوں اپنے میں دل جنت مقام کو

سہ سہ کے نادرست تری خو بگاڑ دی

ہم نے خراب آپ کیا اپنے کام کو

اس سے جلا کے غیر کو امید پختگی

لگ جائے آگ دل کے خیالات خام کو

بخت سپید آئنہ داری کرے تو میں

دکھلاؤں دل کے جور اس آئینہ فام کو

جب تو چلے جنازۂ عاشق کے ساتھ ساتھ

پھر کون وارثوں کے سنے اذن عام کو

شاید کہ دن پھرے ہیں کسی تیرہ روز کے

اب غیر اس گلی میں نہیں پھرتے شام کو

مدت سے نام سنتے تھے مومنؔ کا بارے آج

دیکھا بھی ہم نے اس شعرا کے امام کو
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR