شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے

پوچھا کسی پہ مرتے ہو اور دم نکل گیا

ہم جان سے عناں بہ عنان صدا گئے

پھیلی وہ بو جو ہم میں نہاں مثل غنچہ تھی

جھونکے نسیم کے یہ نیا گل کھلا گئے

اے آب اشک آتش عنصر ہے دیکھنا

جی ہی گیا اگر نفس شعلہ زا گئے

مجلس میں اس نے پان دیا اپنے ہاتھ سے

اغیار سبز بخت تھے ہم زہر کھا گئے

اٹھا نہ ضعف سے گل داغ جنوں کا بوجھ

قاروں کی طرح ہم بھی زمیں میں سما گئے

غیروں سے ہو وہ پردہ نشیں کیوں نہ بے حجاب

دم ہائے بے اثر مرے پردہ اٹھا گئے

تھی بد گمانی اب انہیں کیا عشق حور کی

جو آ کے مرتے دم مجھے صورت دکھا گئے

تابندہ و جوان تو بخت رقیب تھے

ہم تیرہ روز کیوں غم ہجراں کو بھا گئے

بیزار زندگانی کا جینا محال تھا

وہ بھی ہماری نعش کو ٹھوکر لگا گئے

واعظ کے ذکر مہر قیامت کو کیا کہوں

عالم شب وصال کے آنکھوں میں چھا گئے

جس وقت اس دیار سے اغیار بوالہوس

بد خوئیوں سے یار کے ہو کر خفا گئے

دنیا ہی سے گیا میں جوں ہی ناز سے کہا

اب بھی گمان بد نہ گئے تیرے یا گئے

اے مومنؔ آپ کب سے ہوئے بندۂ بتاں

بارے ہمارے دین میں حضرت بھی آ گئے
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR