دیدۂ حیراں نے تماشا کیا

دیدۂ حیراں نے تماشا کیا

دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا

حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا

آنکھ نہ لگنے سے شب احباب نے

آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا

مر گئے اس کے لب جاں بخش پر

ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا

بجھ گئی اک آہ میں شمع حیات

مجھ کو دم سرد نے ٹھنڈا کیا

غیر عیادت سے برا مانتے

قتل کیا آن کے اچھا کیا

ان سے پری وش کو نہ دیکھے کوئی

مجھ کو مری شرم نے رسوا کیا

زندگیٔ ہجر بھی اک موت تھی

مرگ نے کیا کار مسیحا کیا

پان میں یہ رنگ کہاں آپ نے

آپ مرے خون کا دعویٰ کیا

جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے

راز مرا صبر نے افشا کیا

کچھ بھی بن آتی نہیں کیا کیجیے

اس کے بگڑنے نے کچھ ایسا کیا

جائے تھی تیری مرے دل میں سو ہے

غیر سے کیوں شکوۂ بے جا کیا

رحم فلک اور مرے حال پر

تو نے کرم اے ستم آرا کیا

سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے

مرگ نے کب وعدۂ فردا کیا

دعویٔ تکلیف سے جلاد نے

روز جزا قتل پھر اپنا کیا

مرگ نے ہجراں میں چھپایا ہے منہ

لو منہ اسی پردہ نشیں کا کیا

دشمن مومنؔ ہی رہے بت سدا

مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR