یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا

میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

نہ شادی مرگ ہوں کیوں کر ہے مژدہ قتل دشمن کا

کہ گھر میں سے لیے شمشیر وہ روتا نکل آیا

ستم اے گرمی ضبط فغان و آہ چھاتی پر

کبھو بس پڑ گیا چھالا کبھو پھوڑا نکل آیا

کیا زنجیر مجھ کو چارہ گر نے کن دنوں میں جب

عدو کی قید سے وہ شوخ بے پروا نکل آیا

نکل آیا اگر آنسو تو ظالم مت نکال آنکھیں

سنا معذور ہے مضطر نکل آیا نکل آیا

ہمارے خوں بہا کا غیر سے دعویٰ ہے قاتل کو

یہ بعد انفصال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا

ہوئی بلبل ثنا خوان دہان تنگ کس گل کی

کہ فروردی میں غنچہ کا منہ اتنا سا نکل آیا

کوئی تیر اس کا دل میں رہ گیا تھا کیا کہ آنکھوں سے

ابھی رونے میں اک پیکان کا ٹکڑا نکل آیا

دم بسمل یہ کس کے خوف سے ہم پی گئے آنسو

کہ ہر زخم بدن سے خون کا دریا نکل آیا

خدنگ یار کے ہم راہ نکلی جان سینے سے

یہی ارمان اک مدت سے جی میں تھا نکل آیا

بہت نازاں ہے تو اے قیس پر وحشت دکھاؤں گا

کتابوں میں کبھو قصہ جو مومنؔ کا نکل آیا
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR