دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ

دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ

پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ

کب تک نبھائیے بت ناآشنا کے ساتھ

کیجے وفا کہاں تلک اس بے وفا کے ساتھ

یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے

آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی

آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی

ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ

یا رب وصال یار میں کیونکر ہو زندگی

نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ

اللہ رے سوز آتش غم بعد مرگ بھی

اٹھتے ہیں میری خاک سے شعلے ہوا کے ساتھ

سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر

یوں روئے زار زار تو اہل عزا کے ساتھ

ہر دم عرق عرق نگہ بے حجاب ہے

کس نے نگاہ گرم سے دیکھا حیا کے ساتھ

مرنے کے بعد بھی وہی آوارگی رہی

افسوس جاں گئی نفس نارسا کے ساتھ

دست جنوں نے میرا گریباں سمجھ لیا

الجھا ہے ان سے شوخ کے بند قبا کے ساتھ

آتے ہی تیرے چل دیئے سب ورنہ یاس کا

کیسا ہجوم تھا دل حسرت فزا کے ساتھ

میں کینے سے بھی خوش ہوں کہ سب یہ تو کہتے ہیں

اس فتنہ گر کو لاگ ہے اس مبتلا کے ساتھ

اللہ ری گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر

مومنؔ چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ

مومنؔ وہی غزل پڑھو شب جس سے بزم میں

آتی تھی لب پہ جان زہ و حبذا کے ساتھ
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR