ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے

ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے

ہم خاک میں ملنے کی تمنا نہ کریں گے

کیونکر یہ کہیں منت اعدا نہ کریں گے

کیا کیا نہ کیا عشق میں کیا کیا نہ کریں گے

ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں

اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے

کیا نامے میں لکھوں دل وابستہ کا احوال

معلوم ہے پہلے ہی کہ وہ وا نہ کریں گے

غیروں سے شکر لب سخن تلخ بھی تیرا

ہر چند ہلاہل ہو گوارا نہ کریں گے

بیمار اجل چارہ کو گر حضرت عیسیٰ

اچھا بھی کریں گے تو کچھ اچھا نہ کریں گے

جھنجھلاتے ہو کیا دیجیے اک بوسہ دہن کا

ہو جائیں گے لب بند تو غوغا نہ کریں گے

دیوار کے گر پڑتے ہی اٹھنے لگے طوفاں

اب بیٹھ کے کونے میں بھی رویا نہ کریں گے

گر سامنے اس کے بھی گرے اشک تو دل سے

کیوں روز جزا خون کا دعوا نہ کریں گے

کس وقت کیا مردمک چشم کا شکوہ

اے پردہ نشیں ہم تجھے رسوا نہ کریں گے

ناصح کف افسوس نہ مل چل تجھے کیا کام

پامال کریں گے وہ مجھے یا نہ کریں گے

اس کو میں ٹھہرنے نہ دیا جوش قلق نے

اغیار سے ہم شکوۂ بے جا نہ کریں گے

گر ذکر وفا سے یہی غصہ ہے تو اب سے

گو قتل کا وعدہ ہو تقاضا نہ کریں گے
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR