دل قابل محبت جاناں نہیں رہا

دل قابل محبت جاناں نہیں رہا

وہ ولولہ وہ جوش وہ طغیاں نہیں رہا

ٹھنڈا ہے گرم جوشی افسردگی سے جی

کیسا اثر کہ نالہ و افغاں نہیں رہا

کرتے ہیں اپنے زخم جگر کو رفو ہم آپ

کچھ بھی خیال جنبش مژگاں نہیں رہا

دل سختیوں سے آئی طبیعت میں نازکی

صبر و تحمل قلق جاں نہیں رہا

غش ہیں کہ بے دماغ ہیں گل پیرہن نمط

از بس دماغ عطر گریباں نہیں رہا

آنکھیں نہ بدلیں شوخ نظر کیوں کے اب کہ میں

مفتون لطف نرگس فتاں نہیں رہا

ناکامیوں کا گاہ گلہ گاہ شکر ہے

شوق وصال و اندہ ہجراں نہیں رہا

بے تودہ تودہ خاک سبک دوش ہو گئے

سر پر جنون عشق کا احساں نہیں رہا

ہر لحظہ مہر جلووں سے ہیں چشم پوشیاں

آئینہ زار دیدۂ حیراں نہیں رہا

پھرتے ہیں کیسے پردہ نشینوں سے منہ چھپائے

رسوا ہوئے کہ اب غم پنہاں نہیں رہا

آسیب چشم قہر پری طلعتاں نہیں

اے انس اک نظر کہ میں انساں نہیں رہا

بے کاری امید سے فرصت ہے رات دن

وہ کاروبار حسرت و حرماں نہیں رہا

بے سیر دشت و بادیہ لگنے لگا ہے جی

اور اس خراب گھر میں کہ ویراں نہیں رہا

کیا تلخ کامیوں نے لب زخم سی دیئے

وہ شور اشتیاق نمکداں نہیں رہا

بے اعتبار ہو گئے ہم ترک عشق سے

از بس کہ پاس وعدہ و پیماں نہیں رہا

نیند آئی ہے فسانۂ گیسو و زلف سے

وہم و گمان خواب پریشاں نہیں رہا

کس کام کے رہے جو کسی سے رہا نہ کام

سر ہے مگر غرور کا ساماں نہیں رہا

مومنؔ یہ لاف الفت تقویٰ ہے کیوں مگر

دلی میں کوئی دشمن ایماں نہیں رہا
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR