محشر میں پاس کیوں دم فریاد آ گیا
محشر
میں
پاس
کیوں
دم
فریاد
آ
گیا
رحم
اس
نے
کب
کیا
تھا
کہ
اب
یاد
آ
گیا
الجھا
ہے
پانوں
یار
کا
زلف
دراز
میں
لو
آپ
اپنے
دام
میں
صیاد
آ
گیا
ناکامیوں
میں
تم
نے
جو
تشبیہ
مجھ
سے
دی
شیریں
کو
درد
تلخی
فرہاد
آ
گیا
ہم
چارہ
گر
کو
یوں
ہی
پنہائیں
گے
بیڑیاں
قابو
میں
اپنے
گر
وہ
پری
زاد
آ
گیا
دل
کو
قلق
ہے
ترک
محبت
کے
بعد
بھی
اب
آسماں
کو
شکوۂ
بیداد
آ
گیا
وہ
بدگماں
ہوا
جو
کہیں
شعر
میں
مرے
ذکر
بتان
خلخ
و
نوشاد
آ
گیا
تھے
بے
گناہ
جرأت
پا
بوس
تھی
ضرور
کیا
کرتے
وہم
خجلت
جلاد
آ
گیا
جو
ہو
چکا
یقیں
کہ
نہیں
طاقت
وصال
دم
میں
ہمارے
وہ
ستم
ایجاد
آ
گیا
ذکر
شراب
و
حور
کلام
خدا
میں
دیکھ
مومنؔ
میں
کیا
کہوں
مجھے
کیا
یاد
آ
گیا