وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے

وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے

خواب کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے

اس پری وش سے لگاتے ہیں مجھے

لوگ دیوانہ بناتے ہیں مجھے

یا رب ان کا بھی جنازہ اٹھے

یار اس کو سے اٹھاتے ہیں مجھے

ابروئے تیغ سے ایما ہے کہ آ

قتل کرنے کو بلاتے ہیں مجھے

بے وفائی کا عدو کی ہے گلہ

لطف میں بھی وہ ستاتے ہیں مجھے

حیرت حسن سے یہ شکل بنی

کہ وہ آئینہ دکھاتے ہیں مجھے

پھونک دے آتش دل داغ مرے

اس کی خو یاد دلاتے ہیں مجھے

گر کہے غمزہ کسے قتل کروں

تو اشارت سے بتاتے ہیں مجھے

میں تو اس زلف کی بو پر غش ہوں

چارہ گر مشک سنگھاتے ہیں مجھے

شعلہ رو کہتے ہیں اغیار کو وہ

اپنے نزدیک جلاتے ہیں مجھے

جاں گئی پر نہ گئی جورکشی

بعد مردن بھی دباتے ہیں مجھے

وہ جو کہتے ہیں تجھے آگ لگے

مژدۂ وصل سناتے ہیں مجھے

اب یہ صورت ہے کہ اے پردہ نشیں

تجھ سے احباب چھپاتے ہیں مجھے

مومنؔ اور دیر خدا خیر کرے

طور بے ڈھب نظر آتے ہیں مجھے
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR