اگر غفلت سے باز آیا جفا کی

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی

تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی

مرے آغاز الفت میں ہم افسوس

اسے بھی رہ گئی حسرت جفا کی

کبھی انصاف ہی دیکھا نہ دیدار

قیامت اکثر اس کو میں رہا کی

فلک کے ہاتھ سے میں جا چھپوں گر

خبر لا دے کوئی تحت الثرا کی

شب وصل عدو کیا کیا جلا ہوں

حقیقت کھل گئی روز جزا کی

چمن میں کوئی اس کو سے نہ آیا

گئی برباد سب محنت صبا کی

کشاد دل پہ باندھی ہے کمر آج

نہیں ہے خیریت بند قبا کی

کیا جب التفات اس نے ذرا سا

پڑی ہم کو حصول مدعا کی

کہا ہے غیر نے تم سے مرا حال

کہے دیتی ہے بے باکی ادا کی

تمہیں شور فغاں سے میرے کیا کام

خبر لو اپنی چشم سرمہ سا کی

دیا علم و ہنر حسرت کشی کو

فلک نے مجھ سے یہ کیسی دغا کی

غم مقصد رسی تا نزع اور ہم

اب آئی موت بخت نارسا کی

مجھے اے دل تری جلدی نے مارا

نہیں تقصیر اس دیر آشنا کی

جفا سے تھک گئے تو بھی نہ پوچھا

کہ تو نے کس توقع پر وفا کی

کہا اس بت سے مرتا ہوں تو مومنؔ

کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی
مومن خان مومن
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR