دل کو درد آشنا کیا تو نے

دل کو درد آشنا کیا تو نے

درد دل کو دوا کیا تو نے

طبع انساں کو دی سرشت وفا

خاک کو کیمیا کیا تو نے

وصل جاناں محال ٹھہرایا

قتل عاشق روا کیا تو نے

تھا نہ جز غم بساط عاشق میں

غم کو راحت فزا کیا تو نے

جان تھی اک وبال فرقت میں

شوق کو جاں گزا کیا تو نے

تھی محبت میں ننگ منت غیر

جذب دل کو رسا کیا تو نے

راہ زاہد کو جب کہیں نہ ملی

در مے خانہ وا کیا تو نے

قطع ہونے ہی جب لگا پیوند

غیر کو آشنا کیا تو نے

تھی جہاں کارواں کو دینی راہ

عشق کو رہنما کیا تو نے

ناؤ بھر کر جہاں ڈبونی تھی

عقل کو ناخدا کیا تو نے

بڑھ گئی جب پدر کو مہر پسر

اس کو اس سے جدا کیا تو نے

جب ہوا ملک و مال رہزن ہوش

بادشہ کو گدا کیا تو نے

جب ملی کام جاں کو لذت درد

درد کو بے دوا کیا تو نے

جب دیا راہرو کو ذوق طلب

سعی کو نارسا کیا تو نے

پردۂ چشم تھے حجاب بہت

حسن کو خود نما کیا تو نے

عشق کو تاب انتظار نہ تھی

غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے

حرم آباد اور دیر خراب

جو کیا سب بجا کیا تو نے

سخت افسردہ طبع تھی احباب

ہم کو جادو نوا کیا تو نے

پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یا رب

کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے

حالیؔ اٹھا ہلا کے محفل کو

آخر اپنا کہا کیا تو نے
الطاف حسین حالی
الطاف حسین حالی

خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گذرے ہیں۔حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا - ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا، اور کچھ عرصہ بعد ہی اُن کی والدہ کا دماغ ماؤف ہو گیا تو حالی کے بڑے بھائی امدؔاد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔حالؔی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاً مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔ 1856ء میں ہسار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہو گئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ 3-4 سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفؔتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ نواب صاحب کی صحبت سے مولانا حالؔی کی شاعری چمک اٹھی۔ تقریباَ 8 سال مستفید ہوتے رہے۔ پھر دلی آکر مرزا غاؔلب کے شاگرد ہوئے۔ غاؔلب کی وفات پر حالؔی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔ لاہور میں محمد حسین آزؔاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔ وہ بیک وقت  شاعر،نثر نگار،نقّاد صاحب طرز سوانح نگار اور مصلح قوم  ہیں جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ان کی تین اہم کتابیں "حیات سعدی، "یادگار غالب" اور "حیات جاوید" سوانح عمریاں بھی ہیں اور تنقیدیں بھی۔"مقدمۂ شعر و شاعری" کے ذریعہ  انھوں نے اردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھی اور شعر و شاعری کے تعلق سے اک مکمل اور حیات آفریں نظریہ مرتب کیا اور پھر اس کی روشنی میں شاعری پر تبصرہ کیا۔اب اردو تنقید کے جو سانچے ہیں وہ حالی کے بناے ہوئے ہیں اور اب جن چیزوں پر زور دیا جاتا ہے، ان کی طرف سب سے پہلے حالی  نے اپنے مقدمہ میں توجہ دلائی۔ ا پنی مسدس ( مثنوی مدؔ و جزر اسلام)  میں وہ قوم کی زبوں حالی پر خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔  مسدس نے سارے ملک میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سر سید احمد خان کہا کرتے تھے کہ اگر روز محشر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لایا تو کہہ دون گا کہ حالی سے مسدس لکھوائی۔31 دسمبر 1914ء (77 سال) کی عمر میں پت میں وفات پائی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR