کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
کام
آخر
جذبۂ
بے
اختیار
آ
ہی
گیا
دل
کچھ
اس
صورت
سے
تڑپا
ان
کو
پیار
آ
ہی
گیا
جب
نگاہیں
اٹھ
گئیں
اللہ
ری
معراج
شوق
دیکھتا
کیا
ہوں
وہ
جان
انتظار
آ
ہی
گیا
ہائے
یہ
حسن
تصور
کا
فریب
رنگ
و
بو
میں
یہ
سمجھا
جیسے
وہ
جان
بہار
آ
ہی
گیا
ہاں
سزا
دے
اے
خدائے
عشق
اے
توفیق
غم
پھر
زبان
بے
ادب
پر
ذکر
یار
آ
ہی
گیا
اس
طرح
خوش
ہوں
کسی
کے
وعدۂ
فردا
پہ
میں
در
حقیقت
جیسے
مجھ
کو
اعتبار
آ
ہی
گیا
ہائے
کافر
دل
کی
یہ
کافر
جنوں
انگیزیاں
تم
کو
پیار
آئے
نہ
آئے
مجھ
کو
پیار
آ
ہی
گیا
درد
نے
کروٹ
ہی
بدلی
تھی
کہ
دل
کی
آڑ
سے
دفعتاً
پردہ
اٹھا
اور
پردہ
دار
آ
ہی
گیا
دل
نے
اک
نالہ
کیا
آج
اس
طرح
دیوانہ
وار
بال
بکھرائے
کوئی
مستانہ
وار
آ
ہی
گیا
جان
ہی
دے
دی
جگرؔ
نے
آج
پائے
یار
پر
عمر
بھر
کی
بے
قراری
کو
قرار
آ
ہی
گیا