زلف برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے
موسم گل ہے اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے
مے کدے میں نہ بیٹھیے تاہم
کچھ طبیعت بحال کر چلئے
کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا
حرج کیا ہے سوال کر چلئے
ہے اگر قتل عام کی نیت
جسم کی چھب نکال کر چلئے
کسی نازک بدن سے ٹکرا کر
کوئی کسب کمال کر چلئے
یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر
یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے
یار دوزخ میں ہیں مقیم عدمؔ
خلد سے انتقال کر چلئے
عبد الحمید عدم پاکستان کے نامور شاعر ہیں جو رومانی غزلوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔عبد الحمیدعدم 10 اپریل، 1910ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تلونڈی موسیٰ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک پاس کیا۔ پھر پرائیوٹ طور پر ایف اے کیا اور ملٹری اکاونٹس میں ملازم ہو گئے۔ 1939ء میں 10 سال ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے۔ وہاں جا کر عراقی لڑکی سے شادی کر لی۔ 1941ء میں ہندوستان آ گئے۔ اور ایس اے ایس کا امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ پھر ملٹری اکاونٹس میں ملازمت پر بحال ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا آپ 1948ء میں ملٹری اکاونٹس میں ڈپٹی اسسٹنٹ کنٹرولر مقرر ہوئے۔ اور اپریل، 1966ء میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یعسوب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ عدم نے اپنی شاعری کا آغاز ان دونوں کیا تھا جب اردو شاعری کے آسمان پر اختر شیرانی، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری جیسے روشن ستارے جگمگا رہے تھے۔ عدم نے بھی ان کی راہ پر چلتے ہوئے صرف رومانی شاعری کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ اردو زبان کے اس رومانی شاعر نے10 مارچ1981ء میں وفات پائی۔ اور قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ کے صدر دروازے کے پاس دفن ہوئے۔