ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا
ساقی
گلفام
باصد
اہتمام
آ
ہی
گیا
نغمہ
بر
لب
خم
بہ
سر
بادہ
بہ
جام
آ
ہی
گیا
اپنی
نظروں
میں
نشاط
جلوۂ
خوباں
لیے
خلوتی
خاص
سوئے
بزم
عام
آ
ہی
گیا
میری
دنیا
جگمگا
اٹھی
کسی
کے
نور
سے
میرے
گردوں
پر
مرا
ماہ
تمام
آ
ہی
گیا
جھوم
جھوم
اٹھے
شجر
کلیوں
نے
آنکھیں
کھول
دیں
جانب
گلشن
کوئی
مست
خرام
آ
ہی
گیا
پھر
کسی
کے
سامنے
چشم
تمنا
جھک
گئی
شوق
کی
شوخی
میں
رنگ
احترام
آ
ہی
گیا
میری
شب
اب
میری
شب
ہے
میرا
بادہ
میرے
جام
وہ
مرا
سرو
رواں
ماہ
تمام
آ
ہی
گیا
بارہا
ایسا
ہوا
ہے
یاد
تک
دل
میں
نہ
تھی
بارہا
مستی
میں
لب
پر
ان
کا
نام
آ
ہی
گیا
زندگی
کے
خاکۂ
سادہ
کو
رنگیں
کر
دیا
حسن
کام
آئے
نہ
آئے
عشق
کام
آ
ہی
گیا
کھل
گئی
تھی
صاف
گردوں
کی
حقیقت
اے
مجازؔ
خیریت
گزری
کہ
شاہیں
زیر
دام
آ
ہی
گیا