رخصت اے ہم سفرو شہر نگار آ ہی گیا
رخصت
اے
ہم
سفرو
شہر
نگار
آ
ہی
گیا
خلد
بھی
جس
پہ
ہو
قرباں
وہ
دیار
آ
ہی
گیا
یہ
جنوں
زار
مرا
میرے
غزالوں
کا
جہاں
میرا
نجد
آ
ہی
گیا
میرا
تتار
آ
ہی
گیا
آج
پھرتا
بہ
چمن
درپئے
گل
ہائے
چمن
گنگناتا
ہوا
زنبور
بہار
آ
ہی
گیا
گیسوؤں
والوں
میں
ابرو
کے
کماں
داروں
میں
ایک
صید
آ
ہی
گیا
ایک
شکار
آ
ہی
گیا
باغبانوں
کو
بتاؤ
گل
و
نسریں
سے
کہو
اک
خراب
گل
و
نسرین
بہار
آ
ہی
گیا
خیر
مقدم
کو
مرے
کوئی
بہ
ہنگام
سحر
اپنی
آنکھوں
میں
لیے
شب
کا
خمار
آ
ہی
گیا
زلف
کا
ابر
سیہ
بازوئے
سیمیں
پہ
لیے
پھر
کوئی
خیمہ
زن
ساز
بہار
آ
ہی
گیا
ہو
گئی
تشنہ
لبی
آج
رہین
کوثر
میرے
لب
پر
لب
لعلین
نگار
آ
ہی
گیا