مجھ کو یہ جان و دل قبول نغمے کو نغمہ ہی سمجھ
مجھ
کو
یہ
جان
و
دل
قبول
نغمے
کو
نغمہ
ہی
سمجھ
ساز
یہ
بیتتی
ہے
کیا
یہ
بھی
کبھی
کبھی
سمجھ
عشق
ہے
تشنگی
کا
نام
توڑ
دے
گر
ملے
بھی
جام
شدت
تشنگی
نہ
دیکھ
لذت
تشنگی
سمجھ
حسن
کی
مہربانیاں
عشق
کے
حق
میں
زہر
ہیں
حسن
کے
اجتناب
تک
عشق
کی
زندگی
سمجھ
ترک
تعلقات
بھی
عین
تعلقات
ہے
آگ
بجھی
ہوئی
نہ
جان
آگ
دبی
ہوئی
سمجھ
عقل
کے
کاروبار
میں
دل
کو
بھی
رکھ
شریک
کار
دل
کے
معاملات
میں
عقل
کو
اجنبی
سمجھ
غنچہ
و
گل
کے
ساتھ
ساتھ
دل
کی
طرف
بھی
اک
نظر
شیفتۂ
شگفتگی
وجہ
شگفتگی
سمجھ
ایسے
بھی
راز
ہیں
خمارؔ
ہوتے
نہیں
جو
آشکار
اپنی
ہی
مشکلیں
نہ
دیکھ
ان
کی
بھی
بے
بسی
سمجھ