سجدوں کی رسم کہن کو ہوش گنوا کے بھول جا
سجدوں
کی
رسم
کہن
کو
ہوش
گنوا
کے
بھول
جا
سنگ
در
حبیب
پر
سر
کو
جھکا
کے
بھول
جا
عشق
کو
برقرار
رکھ
دل
کو
لگا
کے
بھول
جا
اس
سے
بھی
مطمئن
نہ
ہو
اس
کو
بھی
پا
کے
بھول
جا
دل
سے
تڑپ
جدا
نہ
کر
ساز
کو
بے
صدا
نہ
کر
درد
جو
ہو
فغاں
طلب
ہونٹھ
ہلا
کے
بھول
جا
درد
اٹھے
اٹھا
کرے
چوٹ
لگے
لگا
کرے
کچھ
بھی
ہو
تو
بہ
نام
دوست
ہنس
کے
ہنسا
کے
بھول
جا
جام
بہ
دست
و
مے
بہ
جام
یوں
ہی
گزار
صبح
و
شام
زیست
کی
تلخیاں
مدام
پی
کے
پلا
کے
بھول
جا
منزل
عشق
سے
گزر
بے
خود
و
مست
و
بے
خبر
چوٹ
لگے
تو
اف
نہ
کر
دل
کو
دبا
کے
بھول
جا
گزرے
ہوئے
زمانے
کو
یاد
نہ
کر
کبھی
خمارؔ
اور
جو
یاد
آ
ہی
جائے
اشک
بہا
کے
بھول
جا