کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر

کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر

چل بسا وہ آج سب ہستی کا ساماں چھوڑ کر

طفل اشک ایسا گرا دامان مژگاں چھوڑ کر

پھر نہ اٹھا کوچۂ چاک گریباں چھوڑ کر

کیونکہ نکلے تیرا اس کا دل میں پیکاں چھوڑ کر

جائے بیضے کو کہاں یہ مرغ پراں چھوڑ کر

جس نے ہو لذت اٹھائی زخم تیغ عشق کی

کب وہ مرہم دان کو ڈھونڈے نمک داں چھوڑ کر

صید دل کو کیونکہ چھوڑے جب کہ دکھلا دے نہ تو

مچھلیاں دست حنائی میں مری جاں چھوڑ کر

سرد مہری سے کسی کی آگے ہی جی سرد ہے

یاں سے ہٹ جا دھوپ اے ابر خراماں چھوڑ کر

دیکھیے کیا ہو کہ ہے اب جان کے پیچھے پڑی

دل کو اے کافر تری زلف پریشاں چھوڑ کر

اے دل اس کے تیر کے ہم راہ سینے سے نکل

ورنہ پچھتائے گا تو یہ ساتھ ناداں چھوڑ کر

کیوں نہ رم کر جائیں آہو ایسے وحشی سے ترے

شیر بھاگیں جس کے نالوں سے نیستاں چھوڑ کر

سرخی پاں دیکھ لے زاہد جو دنداں پر ترے

اٹھ کھڑا ہو ہاتھ سے تسبیح مرجاں چھوڑ کر

پیش خیمہ لے کے نکلا گرد باد دور رو

ہے جو سرگرم سفر تن کو مری جاں چھوڑ کر

گر خدا دیوے قناعت ماہ دوہفتہ کی طرح

دوڑے ساری کو کبھی آدھی نہ انساں چھوڑ کر

ساغر دل بیچتا آیا ہوں کھو مت ہاتھ سے

چوکتا ہے کیوں یہ جنس دست گرداں چھوڑ کر

کام یہ تیرا ہی تھا رحمت ہو اے ابر کرم

ورنہ جائے داغ عصیاں میرا داماں چھوڑ کر

پڑھ غزل اے ذوقؔ کوئی گرم سی اب تو نہ جا

جانب مضمون طرز تفتہ جاناں چھوڑ کر
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR