نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا


نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا

اے فلک گر تجھے اونچا نہ سنائی دیتا

دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا

آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

لاکھ دیتا فلک آزار گوارہ تھے مگر

ایک تیرا نہ مجھے درد جدائی دیتا

دے دعا وادیٔ پر خار جنوں کو ہر گام

داد یہ تیری ہے اے آبلہ پائی دیتا

روش اشک گرا دیں گے نظر سے اک دن

ہے ان آنکھوں سے یہی مجھ کو دکھائی دیتا

منہ سے بس کرتے کبھی یہ نہ خدا کے بندے

گر حریصوں کو خدا ساری خدائی دیتا

پنجۂ مہر کو بھی خون شفق میں ہر روز

غوطے کیا کیا ہے ترا دست حنائی دیتا

کون گھر آئنے کے آتا اگر وہ گھر میں

خاکساری سے نہ جاروب صفائی دیتا

میں ہوں وہ صید کہ پھر دام میں پھنستا جا کر

گر قفس سے مجھے صیاد رہائی دیتا

خوگر ناز ہوں کس کا کہ مجھے ساغر مے

بوسۂ لب نہیں بے چشم نمائی دیتا

دیکھ گر دیکھنا ہے ذوقؔ کہ وہ پردہ نشیں

دیدۂ روزن دل سے ہے دکھائی دیتا
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

المزيد من كتابات هذا المؤلف

استفد من نور اللغة والذكاء الاصطناعي۔

استفد من القواميس، المدققات الإملائية، ومحللات الأحرف، خطوة ثورية للطلاب، المعلمين، الباحثين، والأشخاص المرتبطين بمختلف المجالات والصناعات۔

لغات

سَهِّل العملية العلمية والبحثية من خلال القواميس الباكستانية والدولية المختلفة۔

استخدم

مدقق إملائي

حدد وصحح الأخطاء الإملائية في مختلف اللغات۔

استخدم

التعرّف الضوئي على الحروف

حوّل الصور إلى نص قابل للتعديل باستخدام تقنية التعرف الضوئي على الحروف المتقدمة۔

استخدم