زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے

زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے

جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے

ہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سے

یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

پھر آئے اگر جیتے وہ کعبہ کے سفر سے

تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے

سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے

اک آہ ہے سینہ میں سو نامید اثر سے

وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں

ہیں شاخ ثمر دار میں گل پہلے ثمر سے

حاضر ہیں مرے جذبۂ وحشت کے جلو میں

باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے

لبریز مئے صاف سے ہوں جام بلوریں

زمزم سے ہے مطلب نہ صفا سے نہ حجر سے

اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوئے در یار

مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ

جس کا نہ رکے وار فلک کی بھی سپر سے

کھلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ

کیا جانے کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے

اف گرمیٔ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں

پتھر ہیں پہاڑوں کے اڑے جاتے شرر سے

کچھ رحمت باری سے نہیں دور کہ ساقی

روئیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے

میں کشتہ ہوں کس چشم سیہ مست کا یا رب

ٹپکے ہے جو مستی مری تربت کے شجر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا

کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR