یا غرض لاکھ خدائی میں ہوکں دولت والے


یا غرض لاکھ خدائی میں ہوکں دولت والے

ان کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے

چاہیں گر چارہ جراحت کا محبت والے

بیچیں الماس و نمک سنگ جراحت والے

گئے جنت میں اگر سوز محبت والے

تو یہ جانو رہے دوزخ ہی میں جنت والے

ساقیا ہوں جو صبوحی کی نہ عادت والے

صبح محشر کو بھی اٹھیں نہ ترے متوالے

دختر رز کو نہیں چھیڑتے ہیں متوالے

حذر اس فاحشہ سے کرتے ہیں حرمت والے

رہے جوں شیشۂ ساعت وہ مکدر دونوں

کبھی مل بھی گئے دو دل جو کدورت والے

کس مرض کی ہیں دوا یہ لب جاں بخش ترے

جاں بہ لب ہیں ترے آزار محبت والے

حرص کے پھیلتے ہیں پاؤں بہ قدر وسعت

تنگ ہی رہتے ہیں دنیا میں فراغت والے

ہائے رے حسرت دیدار مری ہائے کو بھی

لکھتے ہیں ھائے دو چشمی سے کتابت والے

نہیں جز شمع مجاور مری بالین مزار

نہیں جز کثرت پروانہ زیارت والے

نہ شکایت ہے کرم کی نہ ستم کی خواہش

دیکھ تو ہم بھی ہیں کیا صبر و قناعت والے

کیا تماشا ہے کہ مثل مہ نو اپنا فروغ

جانتے اپنی حقارت کو ہیں شہرت والے

دل سے کچھ کہتا ہوں میں مجھ سے ہے کچھ کہتا دل

دونوں اک حال میں ہیں رنج و مصیبت والے

تو گر آ جائے تو اے درد محبت کی دوا

مرے ہمدرد ہوں بے درد فضیحت والے

چھوڑ دیتے ہیں قلم جوں قلم آتش باز

مری شرح طپش دل کی کتابت والے

کبھی افسوس ہے آتا کبھی رونا آتا

دل بیمار کے ہیں دو ہی عیادت والے

تو مرے حال سے غافل ہے پر اے غفلت کیش

تیرے انداز تغافل نہیں غفلت والے

ہم نے دیکھا ہے جو اس بت میں نہیں کہہ سکتے

کہ مبادا کہیں سن پائیں شریعت والے

ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ

اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

المزيد من كتابات هذا المؤلف

استفد من نور اللغة والذكاء الاصطناعي۔

استفد من القواميس، المدققات الإملائية، ومحللات الأحرف، خطوة ثورية للطلاب، المعلمين، الباحثين، والأشخاص المرتبطين بمختلف المجالات والصناعات۔

لغات

سَهِّل العملية العلمية والبحثية من خلال القواميس الباكستانية والدولية المختلفة۔

استخدم

مدقق إملائي

حدد وصحح الأخطاء الإملائية في مختلف اللغات۔

استخدم

التعرّف الضوئي على الحروف

حوّل الصور إلى نص قابل للتعديل باستخدام تقنية التعرف الضوئي على الحروف المتقدمة۔

استخدم