برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی

برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی

کچھ جو خاکستر بچا آندھی اڑا کر لے گئی

اس کے قدموں تک نہ بیتابی بڑھا کر لے گئی

ہائے دو پلٹے دئیے اور پھر ہٹا کر لے گئی

ناتوانی ہم کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا کر لے گئی

چیونٹی سے چیونٹی دانہ چھڑا کر لے گئی

صبح رخ سے کون شام زلف میں جاتا تھا آہ

اے دل شامت زدہ شامت لگا کر لے گئی

خون سے فرہاد کے رنگیں ہوا دامان کوہ

کیوں نہ موج شیر یہ دھبا چھڑا کر لے گئی

تم نے تو چھوڑا ہی تھا اے ہم رہان قافلہ

لیکن آواز جرس ہم کو جگا کر لے گئی

نوک مژگاں جب ہوئی سینہ فگاروں سے دو چار

پارہ ہائے دل سے گلدستہ بنا کر لے گئی

دیکھی کچھ دل کی کشش لیلیٰ کہ ناقے کو ترے

سوئے مجنوں آخرش رستہ بھلا کر لے گئی

واہ اے سوز دروں کوچے میں اس کے برق آہ

رات ہم کو ہر قدم مشعل دکھا کر لے گئی

وہ گئے گھر غیر کے اور یاں ہمیں دم بھر کے بعد

بدگمانی ان کے گھر سو گھر پھرا کر لے گئی

جو شہید ناز کوچے میں تمہارے تھا پڑا

کیا کہوں تقدیر اسے کیونکر اٹھا کر لے گئی

دشت وحشت میں بگولا تھا کہ دیوانہ ترا

روح مجنوں بہر استقبال آ کر لے گئی

آگ میں ہے کون گر پڑتا مگر پروانے کو

آتش سوز محبت تھی جلا کر لے گئی

اے پری پہلو سے میرے کیا کہوں تیری نگاہ

دل اڑا کر لے گئی یا پر لگا کر لے گئی

ذوقؔ مر جانے کا تو اپنے کوئی موقع نہ تھا

کوئے جاناں میں اجل ناحق لگا کر لے گئی
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR