چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جی ہی جی میں تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ابر کیا آنسو بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

برق کیا ہے تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ذکر شمع حسن لانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ان کو درپردہ جلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جھوٹ موٹ افیون کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ان کو کف لا کر ڈرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

سن کے آمد ان کی از خود رفتہ ہو جاتے ہیں ہم

پیشوا لینے کو جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ہم نے اول ہی کہا تھا تو کرے گا ہم کو قتل

تیوروں کا تاڑ جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

لطف اٹھانا ہے اگر منظور اس کے ناز کا

پہلے اس کا ناز اٹھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جو سکھایا اپنی قسمت نے وگرنہ اس کو غیر

کیا سکھائے گا سکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

دیکھ کر قاتل کو بھر لائے خراش دل میں خوں

سچ تو یہ ہے مسکرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

تیر و پیکاں دل میں جتنے تھے دیے ہم نے نکال

اپنے ہاتھوں گھر لٹانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

کہہ دو قاصد سے کہ جائے کچھ بہانے سے وہاں

گر نہیں آتا بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

خط میں لکھوا کر انہیں بھیجا تو مطلع درد کا

درد دل اپنا جتانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جب کہا مرتا ہوں وہ بولے مرا سر کاٹ کر

جھوٹ کو سچ کر دکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

واں ہلے ابرو یہاں پھیری گلے پر ہم نے تیغ

بات کا ایما سے پانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

تیغ تو اوچھی پڑی تھی گر پڑے ہم آپ سے

دل کو قاتل کے بڑھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

زخم کو سیتے ہیں سب پر سوزن الماس سے

چاک سینے کے سلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

پوچھے ملا سے جسے کرنا ہو سجدہ سہو کا

سیکھے گر اپنا بھلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

کیا ہوا اے ذوقؔ ہیں جوں مردمک ہم رو سیاہ

لیکن آنکھوں میں سمانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR