آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا

آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا

ہے حسرت پابوس نکل جائے تو اچھا

جو چشم کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر

جو دل کہ ہو بے داغ وہ جل جائے تو اچھا

بیمار محبت نے لیا تیرے سنبھالا

لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

ہو تجھ سے عیادت جو نہ بیمار کی اپنے

لینے کو خبر اس کی اجل جائے تو اچھا

کھینچے دل انساں کو نہ وہ زلف سیہ فام

اژدر کوئی گر اس کو نگل جائے تو اچھا

تاثیر محبت عجب اک حب کا عمل ہے

لیکن یہ عمل یار پہ چل جائے تو اچھا

دل گر کے نظر سے تری اٹھنے کا نہیں پھر

یہ گرنے سے پہلے ہی سنبھل جائے تو اچھا

فرقت میں تری تار نفس سینے میں میرے

کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا

اے گریہ نہ رکھ میرے تن خشک کو غرقاب

لکڑی کی طرح پانی میں گل جائے تو اچھا

ہاں کچھ تو ہو حاصل ثمر نخل محبت

یہ سینہ پھپھولوں سے جو پھل جائے تو اچھا

وہ صبح کو آئے تو کروں باتوں میں دوپہر

اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا

ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام

اور چاہوں کہ گر آج سے کل جائے تو اچھا

جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے

گر آج کا دن بھی یوں ہی ٹل جائے تو اچھا

القصہ نہیں چاہتا میں جائے وہ یاں سے

دل اس کا یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھا

ہے قطع رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط

جوں شمع تو اب سر ہی کے بل جائے تو اچھا
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR