کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا

کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا

جو آپھی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا

نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا

اگر پارے کو اے اکسیر گر مارا تو کیا مارا

بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا

خطا تو دل کی تھی قابل بہت سی مار کھانے کے

تری زلفوں نے مشکیں باندھ کر مارا تو کیا مارا

نہیں وہ قول کا سچا ہمیشہ قول دے دے کر

جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا مارا

تفنگ و تیر تو ظاہر نہ تھا کچھ پاس قاتل کے

الٰہی اس نے دل کو تاک کر مارا تو کیا مارا

ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا

کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا

مرے آنسو ہمیشہ ہیں برنگ لعل غرق خوں

جو غوطہ آب میں تو نے گہر مارا تو کیا مارا

جگر دل دونوں پہلو میں ہیں زخمی اس نے کیا جانے

ادھر مارا تو کیا مارا ادھر مارا تو کیا مارا

گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا

دل سنگین خسرو پر بھی ضرب اے کوہ کن پہنچی

اگر تیشہ سر کہسار پر مارا تو کیا مارا

دل بد خواہ میں تھا مارنا یا چشم بدبیں میں

فلک پر ذوقؔ تیر آہ گر مارا تو کیا مارا
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR