مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے

تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے

نہ خدائی کی ہو پروا نہ خدا یاد رہے

لوٹتے سیکڑوں نخچیر ہیں کیا یاد رہے

چیر دو سینے میں دل کو کہ پتا یاد رہے

رات کا وعدہ ہے بندے سے اگر بندہ نواز

بند میں دے لو گرہ تا کہ ذرا یاد رہے

قاصد عاشق سودا زدہ کیا لائے جواب

جب نہ معلوم ہو گھر اور نہ پتا یاد رہے

دیکھ بھی لینا ہمیں راہ میں اور کیوں صاحب

ہم سے منہ پھیر کے جانا یہ بھلا یاد رہے

تیرے مدہوش سے کیا ہوش و خرد کی ہو امید

رات کا بھی نہ جسے کھایا ہوا یاد رہے

کشتۂ ناز کی گردن پہ چھری پھیرو جب

کاش اس وقت تمہیں نام خدا یاد رہے

خاک برباد نہ کرنا مری اس کوچے میں

تجھ سے کہہ دیتا ہوں میں باد صبا یاد رہے

گور تک آئے تو چھاتی پہ قدم بھی رکھ دو

کوئی بیدل ادھر آئے تو پتا یاد رہے

تیرا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیر طوبیٰ

خلد میں بھی ترے کوچے کی ہوا یاد رہے

باز آ جائیں جفا سے جو کبھی آپ تو پھر

یاد عاشق کو نہ کیجے گا بھلا یاد رہے

داغ دل پر مرے پھاہا نہیں ہے انگارا

چارہ گر لیجو نہ چٹکی سے اٹھا یاد رہے

زخم دل بولے مرے دل کے نمک خواروں سے

لو بھلا کچھ تو محبت کا مزا یاد رہے

حضرت عشق کے مکتب میں ہے تعلیم کچھ اور

یاں لکھا یاد رہے اور نہ پڑھا یاد رہے

گر حقیقت میں ہے رہنا تو نہ رکھ خود بینی

بھولے بندہ جو خودی کو تو خدا یاد رہے

عالم حسن خدائی ہے بتوں کی اے ذوقؔ

چل کے بت خانے میں بیٹھو کہ خدا یاد رہے
محمد ابراہیم خان ذوق
محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR