کوئی مقام سکوں راستے میں آیا نہیں
کوئی مقام سکوں راستے میں آیا نہیں
ہزار پیڑ ہیں لیکن کہیں بھی سایا نہیں
کسے پکارے کوئی آہٹوں کے صحرا میں
یہاں کبھی کوئی چہرہ نظر تو آیا نہیں
بھٹک رہے ہیں ابھی تک مسافران وصال
ترے جمال نے کوئی دیا جلایا نہیں
بکھر گیا ہے خلا میں کرن کرن ہو کر
وہ چاند جو کسی پہلو میں جگمگایا نہیں
ترس گئی ہے زمیں بادلوں کی صورت کو
کسی ندی نے کوئی گیت گنگنایا نہیں
اجڑ گیا تھا کسی زلزلے میں شہر وفا
نہ جانے پھر اسے ہم نے بھی کیوں بسایا نہیں
قتیلؔ کیسے کٹے گی یہ دوپہر غم کی
مرے نصیب میں ان گیسوؤں کا سایا نہیں