حدود جلوۂ کون و مکاں میں رہتے ہیں
حدود جلوۂ کون و مکاں میں رہتے ہیں
نہ جانے اہل نظر کس جہاں میں رہتے ہیں
ہمیں تو موسم گل نے ہی کر دیا رسوا
سنا ہے لوگ سلامت خزاں میں رہتے ہیں
عیاں ہے ان کے ستم سے ہمارا ذوق نیاز
ہم آگ بن کے مزاج بتاں میں رہتے ہیں
کہاں تلاش کرے گی ہمیں بہار کہ ہم
کبھی قفس میں کبھی آشیاں میں رہتے ہیں
وہ راز جن کا لبوں نے نہ احترام کیا
برہنہ ہو کے دل رازداں میں رہتے ہیں
غرور حکمت و دانش میں جھومنے والو
کچھ اہل دل بھی اسی خاکداں میں رہتے ہیں
قتیلؔ ارض وطن میں بھی ہوں میں خاک بسر
مرے نصیب کہیں آسماں میں رہتے ہیں