اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو باندھ کر سنگ وفا کر دیا تو نے غرقاب کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں جتنا جی چاہے ترا آج ستا لے مجھ کو بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
قتیل شفائی
قتیل شفائی

اورنگزیب خان (پیدائش ۲۴ دسمبر، ۱۹۱۹ء - وفات ۱۱ جولائی، ۲۰۰۱ء) جو قتیل شفائی کے نام سے جانے جاتے ہے، پاکستان کے ایک مشہور و معروف اردو شاعر تھے۔[4] قتیل شفائی خیبر پختونخوا ہری پورہزارہ میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ یہاں پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور پاک و بھارت کی بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے۔قتیل شفائی ۱۹۱۹ء میں برطانوی ہند (موجوہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محمد اورنگ زیب تھا۔[6] ان کا خاندانی پس منظر ہندکوان ہے۔ انہوں نے ۱۹۳۸ء میں قتیل شفائی اپنا قلمی نام رکھا اور اردو دنیا میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اردو شاعری میں وہ قتیل تخلص کرتے ہیں۔ شفائی انہوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شِفا کانپوری کے نام کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ لگایا۔۱۹۳۵ میں ان کے والد کی وفات ہوئی اور ان پر اعلیٰ تعلیم چھوڑنے کا دباو بنا۔ انہوں نے کھیل کے سامان کی ایک دوکان کھول لی مگر تجارت میں وہ ناکام رہے اور انہوں نے اپنے چھوٹے سے قصبہ سے راولپنڈی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ بعد میں ۱۹۴۷ء میں انہوں نے پاکستانی سنیما میں قدم رکھا نغمہ لکھنے لگے۔ان کے والد ایک تاجر تھے اور ان کے گھر میں شعر و شاعری کا کوئی رواج نہ تھا۔ ابتدا میں انہوں حکیم یحییٰ کو اپنا کلام دکھانا شروع کیا اور بعد میں احمد ندیم قاسمی سے اصلاح لینے لگے اور باقاعدہ ان کے شاگرد بن گئے۔ قاسمی ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔تیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہردلعزیز شاعر ہیں۔ ان کے لہجہ کی سادگی و سچائی، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ یوں تو انہوں مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کی شاعری میں معاشرتی او رسیاسی شعور بھی موجود ہے اور انہیں صفِ اوّل کے ترقی پسند شعرا میں اہم مقام حاصل ہے۔ فلمی نغمہ نگاری میں بھی انہوں نے ایک معتبر مقام حاصل کیا۔ ان کا کلام پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں یکساں طور پر مقبول ہے۔صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی ۱۹۹۴ء، آدم جی ادبی انعام، امیر خسرو ایوارڈ، نقوش ایوارڈ۔ نیز بھارت کی مگدھ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے "قتیل اور ان کے ادبی کارنامے" کے عنوان سے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی دو نظمیں شامل نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں بہاولپور یونیورسٹی کی دو طالبات نے ایم اے کے لیے ان پر مقالہ تحریر کیا۔۱۱ جولائی ۲۰۰۱ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے اور علامہ اقبال ٹائون کے کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR