مصلحت حرف صداقت پہ نہ ڈالے رکھنا
مصلحت
حرف
صداقت
پہ
نہ
ڈالے
رکھنا
تم
اندھیروں
میں
چھپا
کر
نہ
اجالے
رکھنا
جو
بھی
آئے
گا
خدائی
کی
سند
مانگے
گا
کچھ
نئے
دور
کی
خاطر
بھی
حوالے
رکھنا
موج
کہتی
ہے
کہ
میں
سر
سے
گزر
جاؤں
گی
دل
کا
فرمان
کہ
پتوار
سنبھالے
رکھنا
رفتۂ
سیل
بلا
ہوں
یہ
مری
عادت
ہے
اپنی
کشتی
کسی
گرداب
میں
ڈالے
رکھنا
اس
قبیلے
سے
ہوں
میں
جس
کا
یہ
دستور
ہے
سیفؔ
قتل
گاہوں
میں
علم
اپنے
سنبھالے
رکھنا