ہر اک چلن میں اسی مہرباں سے ملتی ہے
ہر
اک
چلن
میں
اسی
مہرباں
سے
ملتی
ہے
زمیں
ضرور
کہیں
آسماں
سے
ملتی
ہے
سرود
عشق
میں
نغمات
سحر
شامل
ہیں
تری
خبر
بھی
مری
داستاں
سے
ملتی
ہے
تری
نگاہ
سے
آخر
عطا
ہوئی
دل
کو
وہ
اک
خلش
کہ
غم
دو
جہاں
سے
ملتی
ہے
چلے
ہیں
سیفؔ
وہاں
ہم
علاج
غم
کے
لئے
دلوں
کو
درد
کی
دولت
جہاں
سے
ملتی
ہے