یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
یوں
ترے
حسن
کی
تصویر
غزل
میں
آئے
جیسے
بلقیس
سلیماں
کے
محل
میں
آئے
جبر
سے
ایک
ہوا
ذائقۂ
ہجر
و
وصال
اب
کہاں
سے
وہ
مزا
صبر
کے
پھل
میں
آئے
یہ
بھی
آرائش
ہستی
کا
تقاضا
تھا
کہ
ہم
حلقۂ
فکر
سے
میدان
عمل
میں
آئے
ہر
قدم
دست
و
گریباں
ہے
یہاں
خیر
سے
شر
ہم
بھی
کس
معرکۂ
جنگ
و
جدل
میں
آئے
زندگی
جن
کے
تصور
سے
جلا
پاتی
تھی
ہائے
کیا
لوگ
تھے
جو
دام
اجل
میں
آئے