پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی

پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی

دل میں لیکن اور ہی اک شکل کی حسرت بھی تھی

جو ہوا میں گھر بنائے کاش کوئی دیکھتا

دشت میں رہتے تھے پر تعمیر کی عادت بھی تھی

کہہ گیا میں سامنے اس کے جو دل کا مدعا

کچھ تو موسم بھی عجب تھا کچھ مری ہمت بھی تھی

اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری کٹ گئی

گو ذرا سے فاصلے پر گھر کی ہر راحت بھی تھی

کیا قیامت ہے منیرؔ اب یاد بھی آتے نہیں

وہ پرانے آشنا جن سے ہمیں الفت بھی تھی
منیر نیازی
منیر نیازی

منیر نیازی (9 اپریل 1923ء - 26 دسمبر 2006ء) کا شمار اردو اور پنجابی کے اہم تر شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری قیام ساہیوال کے ایام کی یادگار ہے۔ منٹگمری (اب ساہیوال) میں انھوں نے ۔۔سات رنگ۔۔۔کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ لاہور منتقلی کے بعد فلمی گانے بھی لکھے۔ منیر نیازی کی غزل میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔منیر نیازی ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آ گئے۔ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان میں شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR