بے نیاز غم پیمان وفا ہو جانا
بے
نیاز
غم
پیمان
وفا
ہو
جانا
تم
بھی
اوروں
کی
طرح
مجھ
سے
جدا
ہو
جانا
میں
بھی
پلکوں
پہ
سجا
لوں
گا
لہو
کی
بوندیں
تم
بھی
پا
بستہ
زنجیر
حنا
ہو
جانا
گرچہ
اب
قرب
کا
امکاں
ہے
بہت
کم
پھر
بھی
کہیں
مل
جائیں
تو
تصویر
نما
ہو
جانا
صرف
منزل
کی
طلب
ہو
تو
کہاں
ممکن
ہے
دوسروں
کے
لیے
خود
آبلہ
پا
ہو
جانا
خلق
کی
سنگ
زنی
میری
خطاؤں
کا
صلہ
تم
تو
معصوم
ہو
تم
دور
ذرا
ہو
جانا
اب
مرے
واسطے
تریاک
ہے
الحاد
کا
زہر
تم
کسی
اور
پجاری
کے
خدا
ہو
جانا