کچھوا اور خرگوش

ایک کچھوے کے آ گئی جی میں

کیجئے سیر و گشت خشکی کی

جا رہا تھا چلا ہوا خاموش

اس سے ناحق الجھ پڑا خرگوش

میاں کچھوے! تمہاری چال ہے یہ

یا کوئی شامت اور وبال ہے یہ

یوں قدم پھونک پھونک دھرتے ہو

گویا اتو زمیں پہ دھرتے ہو

کیوں ہوئے چل کے مفت میں بد نام

بے چلے کیا اٹک رہا تھا کام

تم کو یہ حوصلہ نہ کرنا تھا

چلو پانی میں ڈوب مرنا تھا

یہ تن و توش اور یہ رفتار

ایسی رفتار پر خدا کی مار

بولا کچھوا کہ ہوں خفا نہ حضور

میں تو ہوں آپ معترف بہ قصور

اگر آہستگی ہے جرم و گناہ

تو میں خود اپنے جرم کا ہوں گواہ

مجھ کو جو سخت سست فرمایا

آپ نے سب درست فرمایا

مجھ کو غافل مگر نہ جانئے گا

بندہ پرور برا نہ مانئے گا

یوں زبانی جواب تو کیا دوں

شرط بد کر چلو تو دکھلا دوں

تم تو ہو آفتاب میں ذرہ

پر مٹا دوں گا آپ کا غرہ

سن کے خرگوش نے یہ تلخ جواب

کہا کچھوے سے یوں زروئے عتاب

تو کرے میری ہم سری کا خیال

تیری یہ تاب یہ سکت یہ مجال

چیونٹی کے جو پر نکل آئے

تو یقیں ہے کہ اب اجل آئے

ارے بے باک! بد زباں منہ پھٹ

تو نے دیکھی کہاں ہے دوڑ جھپٹ

جب میں تیزی سے جست کرتا ہوں

شہسواروں کو پست کرتا ہوں

گرد کو میری باد پا نہ لگے

لاکھ دوڑے مرا پتہ نہ لگے

ریل ہوں برق ہوں چھلاوا ہوں

میں چھلاوے کا بلکہ باوا ہوں

تیری میری نبھے گی صحبت کیا

آسماں کو زمیں سے نسبت کیا

جس نے بھگتے ہوں ترکی و تازی

ایسے مریل سے کیا بدے بازی

بات کو اب زیادہ کیا دوں طول

خیر کرتا ہوں تیری شرط قبول

ہے مناسب کہ امتحاں ہو جائے

تاکہ عیب و ہنر عیاں ہو جائے

الغرض اک مقام ٹھہرا کر

ہوئے دونوں حریف گرم سفر

بسکہ زوروں پہ تھا چڑھا خرگوش

تیزی پھرتی سے یوں بڑھا خرگوش

جس طرح جائے توپ کا گولا

یا گرے آسمان سے اولا

ایک دو کھیت چوکڑی بھر کے

اپنی چستی پہ آفریں کر کے

کسی گوشہ میں سو گیا جا کر

فکر ''کیا ہے چلیں گے سستا کر''

اور کچھوا غریب آہستہ

چلا سینہ کو خاک پر گھستا

سوئی گھنٹے کی جیسے چلتی ہے

یا بہ تدریج چھاؤں ڈھلتی ہے

یوں ہی چلتا رہا بہ استقلال

نہ کیا کچھ ادھر ادھر کا خیال

کام کرتا رہا جو پے در پے

کر گیا رفتہ رفتہ منزل طے

حیف خرگوش رہ گیا سوتا

ثمرہ غفلت کا اور کیا ہوتا

جب کھلی آنکھ تو سویرا تھا

سخت شرمندگی نے گھیرا تھا

صبر و محبت میں ہے سرافرازی

سست کچھوے نے جیت لی بازی

نہیں قصہ یہ دل لگی کے لیے

بلکہ عبرت ہے آدمی کے لیے

ہے سخن اس حجاب میں روپوش

ورنہ کچھوا کہاں کہاں خرگوش
اسماعیل میرٹھی
اسماعیل میرٹھی

اسماعیل میرٹھی 12نومبر 1844کو میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے معروف ہے۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی،12نومبر، 1844 عیسوی کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ اب یہ محلہ اسمٰعیل نگر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا اور یہی آپ کے پہلے استاد بھی تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ پہلے فارسی اور پھر دس برس کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی۔ 1857 کی جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ اسمٰعیل نے محسوس کر لیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے تحت انھوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے پرتوجہ دی، انگریزی میں مہارت حاصل کی، انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا، مگر ان علوم سے فراغت کے بعد اعلیٰ ملازمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا معزز پیشی اختیار کیا تاکہ اس راہ سے قوم کو اپنے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جانے کی کوشش کریں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسما عیل میرٹھی نے سررشتہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR