مچھلیوں کے ماسٹر جی

ننھی ہو تم بچی ہو تم

سب عقل کی کچی ہو تم

آؤ مری باتیں سنو

چالیں سنو گھاتیں سنو

استاد کی ہر بات کو

اپنی گرہ میں باندھ لو

جب تم جواں ہو جاؤ گی

مچھلی کی ماں ہو جاؤ گی

پھر یاد آئیں گی تمہیں

لہرے دکھائیں گی تمہیں

باتیں ہماری مچھلیو

اے پیاری پیاری مچھلیو

روہو کی بیٹی کان دھر

سانول کی بچی آ ادھر

اور ننھی منی تو بھی سن

او تھن متھنی تو بھی سن

چوڑے دہانے والیو

اور دم ہلانے والیو

تم بھی سنو چمکیلیو

اے کالی نیلی پیلیو

تم کو یہاں پر دیکھ کر

ندی پہ آ جائے اگر

کوئی شکاری مچھلیو

اے پیاری پیاری مچھلیو

جب وہ کنارے بیٹھ کر

ڈوری کو پھینکے گا ادھر

ننھے سے کانٹے پر چڑھا

ہوگا مزے کا کیچوا

لپکو گی تم سب بے خبر

اک تر نوالہ جان کر

کانٹا مگر چبھ جائے گا

بس حلق میں کھب جائے گا

تڑپو گی اور گھبراؤ گی

لیکن سبھی پھنس جاؤ گی

تم باری باری مچھلیو

اے پیاری پیاری مچھلیو

جب کیچوا کھا جاؤ تم

بس لوٹ کر آ جاؤ تم

لیکن ذرا سا چھیڑ دو

کانٹے کی پتلی ڈور کو

سرکنڈا جب کھنچ آئے گا

دھوکا شکاری کھائے گا

سمجھے گا مچھلی پھنس گئی

کھینچے گا بنسی ڈور کی

پھر شکل اس کی دیکھنا

ہوتی ہے کیسی دیکھنا

وہ بے قراری مچھلیو

اے پیاری پیاری مچھلیو

اب وہ بہت جھلائے گا

چیخے گا اور چلائے گا

پھر کیچوے پر کیجوا

کانٹے میں بھرتا جائے گا

تم بھی اسی ترکیب سے

کھاتی ہی جانا کیچوے

آخر شکاری ہار کر

اٹھے گا دل کو مار کر

حیلہ گری رہ جائے گی

ساری دھری رہ جائے گی

تھیلی پٹاری مچھلیو

اے پیاری پیاری مچھلیو
حفیظ جالندھری
حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت دی۔حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیاء کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے، اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیا اور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR