کوّا

آگے پیچھے دائیں بائیں

کائیں کائیں کائیں کائیں

صبح سویرے نور کے تڑکے

منہ دھو دھا کر ننھے لڑکے

بیٹھتے ہیں جب کھانا کھانے

کوے لگتے ہیں منڈلانے

توبہ توبہ ڈھیٹ ہیں کتنے

کوے ہیں یا کالے فتنے

لاکھ ہنکاؤ لاکھ اڑاؤ

منہ سے چیخو ہاتھ ہلاؤ

گھورو گھڑکو یا دھتکارو

کوئی چیز اٹھا کر مارو

کوے باز نہیں آتے ہیں

جاتے ہیں پھر آ جاتے ہیں

ہر دم ہے کھانے کی عادت

شور مچانے کی ہے عادت

بچوں سے بالکل نہیں ڈرتا

ان کی کچھ پروا نہیں کرتا

دیکھا ننھا بھولا بھالا

چھین لیا ہاتھوں سے نوالا

کوئی اشارہ ہو یا آہٹ

تاڑ کے اڑ جاتا ہے جھٹ پٹ

اب کرنے دو کائیں کائیں

ہم کیوں اپنی جان کھپائیں
حفیظ جالندھری
حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت دی۔حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیاء کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے، اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیا اور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR