قادر نامہ

قادر اور اللہ اور یزداں خدا

ہے نبی مرسل پیمبر رہنما

پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام

وہ رسول اللہ کا قائم مقام

ہے صحابی دوست خالص ناب ہے

جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے

بندگی کا ہاں عبادت نام ہے

نیک بختی کا سعادت نام ہے

کھولنا افطار ہے اور روزہ صوم

لیل یعنی رات دن اور روز یوم

ہے صلوٰۃ اے مہرباں اسم نماز

جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز

جانماز اور پھر مصلیٰ ہے وہی

اور سجادہ بھی گویا ہے وہی

اسم وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام

کعبہ مکہ وہ جو ہے بیت الحرام

گرد پھرنے کو کہیں گے ہم طواف

بیٹھ رہنا گوشے میں ہے اعتکاف

پھر فلک چرخ اور گردوں اور سپہر

آسماں کے نام ہیں اے رشک مہر

مہر سورج چاند کو کہتے ہیں ماہ

ہے محبت مہر لازم ہے نباہ

غرب پچھم اور پورب شرق ہے

ابر بدلی اور بجلی برق ہے

آگ کا آتش اور آذر نام ہے

اور انگارے کا اخگر نام ہے

تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے

فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے

نیولا راسو ہے اور طاؤس مور

کبک کو ہندی میں کہتے ہیں چکور

خم ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے سبو

آب پانی بحر دریا نہر جو

چاہ کو کہتے ہیں ہندی میں کنواں

دود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں

دودھ جو پینے کا ہے وہ شیر ہے

طفل لڑکا اور بوڑھا پیر ہے

سینہ چھاتی دست ہاتھ اور پا پاؤں

شاخ ٹہنی برگ پتا سایہ چھانو

ماہ چاند اختر ہیں تارے رات شب

دانت دنداں ہونٹ کو کہتے ہیں لب

استخواں ہڈی ہے اور ہے پوست کھال

سگ ہے کتا اور گیدڑ ہے شغال

تل کو کنجد اور رخ کا گال کہہ

گال پر جو تل ہو اس کو خال کہہ

کیکڑا سرطان ہے کچھوا سنگ پشت

ساق پنڈلی فارسی مٹھی کی مشت

ہے شکم پیٹ اور بغل آغوش ہے

کہنی آرنج اور کندھا دوش ہے

ہندی میں عقرب کا بچھو نام ہے

فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے

ہے وہی کژدم جسے عقرب کہیں

نیش ہے وہ ڈنک جس کو سب کہیں

ہے لڑائی حرب اور جنگ ایک چیز

کعب ٹخنا اور شتالنگ ایک چیز

ناک بینی پرہ نتھنا گوش کان

کان کی لو نرمہ ہے اے مہربان

چشم ہے آنکھ اور مژگاں ہے پلک

آنکھ کی پتلی کو کہیے مردمک

منہ پہ گر جھری پڑے آزنگ جان

فارسی چھینکے کی تو آونگ جان

مسا آژخ اور چھالا آبلہ

اور ہے دائی جنائی قابلہ

اونٹ اشتر اور اشغر سیہ ہے

گوشت ہے لحم اور چربی پیا ہے

ہے زنخ ٹھوڑی ذقن بھی ہے وہی

خاد ہے چیل اور زغن بھی ہے وہی

پھر غلیواز اس کو کہیے جو ہے چیل

چیونٹی ہے مور اور ہاتھی ہے فیل

لومڑی روباہ اور آہو ہرن

شمس سورج اور شعاع اس کی کرن

اسپ جب ہندی میں گھوڑا نام پائے

تازیانہ کیوں نہ کوڑا نام پائے

گربہ بلی موش چوہا دام جال

رشتہ تاگا جامہ کپڑا قحط کال

خر گدھا اور اس کو کہتے ہیں الاغ

دیگداں چولہا جسے کہیے اجاغ

ہندی چڑیا فارسی گنجشک ہے

مینگنی جس کو کہیں وہ پشک ہے

تابہ ہے بھائی توے کی فارسی

اور تیہو ہے لوئی کی فارسی

نام مکڑی کا قلاش اور عنکبوت

کہتے ہیں مچھلی کو ماہی اور ہوت

پشہ مچھر اور مکھی ہے مگس

آشیانہ گھونسلہ پنجرہ قفس

بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند

میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند

نام گل کا پھول شبنم اوس ہے

جس کو نقارا کہیں وہ کوس ہے

سقف چھت ہے سنگ پتھر اینٹ خشت

جو برا ہے اس کو ہم کہتے ہیں زشت

خار کانٹا داغ دھبہ نغمہ راگ

سیم چاندی مس ہے تانبا بخت بھاگ

زر ہے سونا اور زر گر ہے سنار

موز کیلا اور ککڑی ہے خیار

ریش داڑھی موچھ سبلت اور بروت

احمق اور نادان کو کہتے ہیں اوت

زندگانی ہے حیات اور مرگ موت

شوے خاوند اور ہے انباغ سوت

جملہ سب اور نصف آدھا ربع پاؤ

صرصر آندھی سیل نالہ باد باؤ

ہے جراحت اور زخم اور گھاؤ ریش

بھینس کو کہتے ہیں بھائی گاؤ میش

ہفت سات اور ہشت آٹھ اور بست بیس

سی اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس

ہے چہل چالیس اور پنجاہ پچاس

ناامیدی یاس اور امید آس

دوش کل کی رات اور امروز آج

ارد آٹا اور غلہ ہے اناج

چاہیے ہے ماں کو مادر جاننا

اور بھائی کو برادر جاننا

پھاوڑا بیل اور درانتی واس ہے

فارسی کاہ اور ہندی گھاس ہے

سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ

خشک ہو جاتی ہے تب کہتے ہیں کاہ

چکسہ پڑیا کیسے کا تھیلی ہے نام

فارسی میں دھپے کا سیلی ہے نام

اخلکندو جھنجنا نیرو ہے زور

بادفر پھرکی ہے اور ہے دزد چور

انگبیں شہد اور عسل یہ اے عزیز

نام کو ہیں تین پر ہے ایک چیز

عاجل اور آروغ کی ہندی ڈکار

مے شراب اور پینے والا میگسار

روئی کو کہتے ہیں پنبہ سن رکھو

آم کو کہتے ہیں انبہ سن رکھو

خانہ گھر ہے اور کوٹھا بام ہے

قلعہ دژ کھائی کا خندق نام ہے

ہے بنولا پنبہ دانہ لا کلام

اور تربز ہند دانہ لا کلام

گر دریچہ فارسی کھڑکی کی ہے

سرزنش بھی فارسی جھڑکی کی ہے

ہے کہانی کی فسانہ فارسی

اور شعلے کی زبانہ فارسی

نعل در آتش اسی کا نام ہے

جو کہ بے چین اور بے آرام ہے

پست اور ستو کو کہتے ہیں سویق

ژرف اور گہرے کو کہتے ہیں عمیق

تار تانا پود بانا یاد رکھ

آزمودن آزمانا یاد رکھ

یوسہ مچھی چاہنا ہے خواستن

کم ہے اندک اور گھٹانا کاستن

خوش رہو ہنسنے کو خندیدن کہو

گر ڈرو ڈرنے کو ترسیدن کہو

ہے ہراسیدن بھی ڈرنا کیوں ڈرو

اور جنگیدن ہے لڑنا کیوں لڑو

ہے گزرنے کی گذشتن فارسی

اور پھرنے کی ہے گشتن فارسی

وہ سرودن ہے جسے گانا کہیں

ہے وہ آوردن جسے لانا کہیں

زیستن کو جان من جینا کہو

اور نوشیدن کو تم پینا کہو

دوڑنے کی فارسی ہے تاختن

کھیلنے کی فارسی ہے باختن

دوختن سینا دریدن پھاڑنا

کاشتن بونا ہے رفتن جھاڑنا

کاشتن بونا ہے اور کشتن بھی ہے

کاتنے کی فارسی رشتن بھی ہے

ہے ٹپکنے کی چکیدن فارسی

اور سننے کی شنیدن فارسی

کودنا جستن بریدن کاٹنا

اور یسیدن کی ہندی چاٹنا

دیکھنا دیدن رمیدن بھاگنا

جان لو بیدار بودن جاگنا

آمدن آنا بنانا ساختن

ڈالنے کی فارسی انداختن

سوختن جلنا چمکنا تافتن

ڈھونڈھنا جستن ہے پانا یافتن

باندھنا بستن کشادن کھولنا

داشتن رکھنا ہے سختن تولنا

تولنے کو اور سنجیدن کہو

پھر خفا ہونے کو رنجیدن کہو

فارسی سونے کو خفتن جانیے

منہ سے کچھ کہنے کو گفتن جانیے

کھینچنے کی ہے کشیدن فارسی

اور اگنے کی دمیدن فارسی

اونگھنا پوچھو غنودن جان لو

مانجھنا چاہو زدودن جان لو

ہے قلم کا فارسی میں خامہ نام

ہے غزل کا فارسی میں چامہ نام

کس کو کہتے ہیں غزل ارشاد ہو

ہاں غزل پڑھیے سبق گر یاد ہو

صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا

جمعے کے دن وعدہ ہے دیدار کا

وہ چراوے باغ میں میوہ جسے

پھاند جانا یاد ہو دیوار کا

پل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ

ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا

شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے بھیڑ

آج عالم اور ہے بازار کا

لال ڈگی پر کرے گا جا کے کیا

پل پہ چل ہے آج دن اتوار کا

گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلاؤں تمہیں

کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا

واہ بے لڑکے پڑھی اچھی غزل

شوق ابھی سے ہے تجھے اشعار کا

تو سنو کل کا سبق آ جاؤ تم

پوزی افسار اور دمچی پاردم

چھلنی کو غربال پرویزن کہو

چھید کو تم رخنہ اور روزن کہو

چہ کے معنی کیا چگویم کیا کہوں

من شوم خاموش میں چپ ہو رہوں

باز خواہم رفت میں پھر جاؤں گا

نان خواہم خورد روٹی کھاؤں گا

فارسی کیوں کی چرا ہے یاد رکھ

اور گھنٹالا درا ہے یاد رکھ

دشت صحرا اور جنگل ایک ہے

پھر سہ شنبہ اور منگل ایک ہے

جس کو ناداں کہیے وہ انجان ہے

فارسی بینگن کی باذنجان ہے

جس کو کہتے ہیں جمائی فازہ ہے

جو ہے انگڑائی وہی خمیازہ ہے

یارہ کہتے ہیں کڑے کو ہم سے پوچھ

پاڑ ہے تالار اک عالم سے پوچھ

جس طرح گہنے کی زیور فارسی

اس طرح ہنسلی کی پرگر فارسی

بھڑ کی بھائی فارسی زنبور ہے

دسپنا انبر ہے اور انبور ہے

فارسی آئینہ ہندی آرسی

اور ہے کنگھے کی شانہ فارسی

ہینگ انگوزہ ہے اور ارزیر رانگ

ساز باجا اور ہے آواز بانگ

زوجہ جورو یزنہ بہنوئی کو جان

خشم غصے اور بد خوئی کو جان

لوہے کو کہتے ہیں آہن اور حدید

جو نئی ہو چیز اسے کہیے جدید

ہے نوا آواز ساماں اور اول

نرخ قیمت اور بہا یہ سب ہیں مول

سیر لہسن ترب مولی ترہ ساگ

کھا بخور برخیز اٹھ بگریز بھاگ

روئی کی پونی کا ہے پاغند نام

دوک تکلے کو کہیں گے لا کلام

گیتی اور گیہاں ہے دنیا یاد رکھ

اور ہے نداف دھنیا یاد رکھ

کوہ کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ

فارسی گلخن ہے اور ہندی ہے بھاڑ

تکیہ بالش اور بچھونا بسترہ

اصل بستر ہے سمجھ لو تم ذرا

بسترہ بولیں سپاہی اور فقیر

ورنہ بستر کہتے ہیں برنا و پیر

پیر بوڑھا اور برنا ہے جواں

جان کو البتہ کہتے ہیں رواں

اینٹ کے گارے کا نام آژند ہے

ہے نصیحت بھی وہی جو پند ہے

پند کو اندرز بھی کہتے ہیں ہاں

ارض ہے پر مرز بھی کہتے ہیں ہاں

کیا ہے ارض اور مرز تم سمجھے زمیں

عنق گردن اور پیشانی جبیں

آس چکی آسیا مشہور ہے

اور فوفل چھالیا مشہور ہے

بانسلی نے اور جلاجل جھانجھ ہے

پھر سترون اور عقیمہ بانجھ ہے

کحل سرمہ اور سلائی میل ہے

جس کو جھولی کہیے وہ زنبیل ہے

پایا قادر نامے نے آج اختتام

اک غزل تم اور پڑھ لو والسلام

شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں

مانتا لیکن ہمارا دل نہیں

علم سے ہی قدر ہے انسان کی

ہے وہی انسان جو جاہل نہیں

کیا کہیں کھائی ہے حافظ جی کی مار

آج ہنستے آپ جو کھل کھل نہیں

کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق

ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا

اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب
مرزا اسد اللہ خان غالب

نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ اردو زبان کے نامور ترین شعرا میں سرفہرست ہیں۔ آپ 27 دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ 15 فروری 1996 میں غالب اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔ غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انھیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انھوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ اردو میں غالب پہلے شخص ہیں جو اپنے خطوظ میں اپنی شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر غالب کی شاعری سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حالی نے انھیں حیوان ظریف کیوں کہا ہے۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ غالب کے کلام سے غالب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس غالب کی ہے جو خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔ لیکن خطوط میں وہ غالب ہمیں ملتا ہے جس کے قدم زمین پر جمے ہیں۔ جس میں زندگی بسر کرنے کا ولولہ ملتا ہے۔ جو اپنے نام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا۔ غالب کی زندگی سراپا حرکت و عمل ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک بے تکلفی ،بے ساختگی اور حقیقت پسندی کی موجودگی اس کے خطوط سے چھلکی پڑتی ہے۔ اخفائے ذات اور پاس حجاب کا وہ کم از کم خطوط میں قائل نظر نہیں آتا۔ غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنے بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز میں لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہوجاتی ہے۔ اس آب بیتی میں جیتا جاگتا غالب اپنے غموں اور خوشیوں، اپنی آرزوں اور خواہشوں، اپنی محرومیوں اور شکستوں اپنی احتیاجوں اور ضرورتوں، اپنی شوخیوں، اپنی بذلہ سنجیوں کے ساتھ زندگی سے ہر صورت نباہ کرتا ہوا ملے گا۔ شبلی نے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ، ” اردو انشا پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگِ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔“

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR