پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
سنا ہے کہ آتا ہے سر نامہ بر کا
کہاں رہ گیا ارمغاں آتے آتے
یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی
مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے
ابھی سن ہی کیا ہے جو بیباکیاں ہوں
انہیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے
کلیجا مرے منہ کو آئے گا اک دن
یوں ہی لب پر آہ و فغاں آتے آتے
چلے آتے ہیں دل میں ارمان لاکھوں
مکاں بھر گیا میہماں آتے آتے
نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
تمہارا ہی مشتاق دیدار ہوگا
گیا جان سے اک جواں آتے آتے
تری آنکھ پھرتے ہی کیسا پھرا ہے
مری راہ پر آسماں آتے آتے
پڑا ہے بڑا پیچ پھر دل لگی میں
طبیعت رکی ہے جہاں آتے آتے
مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اڑ گیا آندھیاں آتے آتے
کسی نے کچھ ان کو ابھارا تو ہوتا
نہ آتے نہ آتے یہاں آتے آتے
قیامت بھی آتی تھی ہم راہ اس کے
مگر رہ گئی ہم عناں آتے آتے
بنا ہے ہمیشہ یہ دل باغ و صحرا
بہار آتے آتے خزاں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
داغ دہلوی
داغ دہلوی

نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR