اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے
اللہ تیری شان کے قربان جائیے
بگڑے ہوئے مزاج کو پہچان جائیے
سیدھی طرح نہ مانئے گا مان جائیے
کس کا ہے خوف روکنے والا ہی کون ہے
ہر روز کیوں نہ جائیے مہمان جائیے
محفل میں کس نے آپ کو دل میں چھپا لیا
اتنوں میں کون چور ہے پہچان جائیے
ہیں تیوری میں بل تو نگاہیں پھری ہوئی
جاتے ہیں ایسے آنے سے اوسان جائیے
دو مشکلیں ہیں ایک جتانے میں شوق کے
پہلے تو جان جائیے پھر مان جائیے
انسان کو ہے خانۂ ہستی میں لطف کیا
مہمان آئیے تو پشیمان جائیے
گو وعدۂ وصال ہو جھوٹا مزہ تو ہے
کیوں کر نہ ایسے جھوٹ کے قربان جائیے
رہ جائے بعد وصل بھی چیٹک لگی ہوئی
کچھ رکھئے کچھ نکال کے ارمان جائیے
اچھی کہی کہ غیر کے گھر تک ذرا چلو
میں آپ کا نہیں ہوں نگہبان جائیے
آئے ہیں آپ غیر کے گھر سے کھڑے کھڑے
یہ اور کو جتایئے احسان، جائیے
دونوں سے امتحان وفا پر یہ کہہ دیا
منوائیے رقیب کو یا مان جائیے
کیا بدگمانیاں ہیں انہیں مجھ کو حکم ہے
گھر میں خدا کے بھی تو نہ مہمان جائیے
کیا فرض ہے کہ سب مری باتیں قبول ہیں
سن سن کے کچھ نہ مانئے کچھ مان جائیے
سودائیان زلف میں کچھ تو لٹک بھی ہو
جنت میں جائیے تو پریشان جائیے
دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو
قربان جائیے ترے قربان جائیے
دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو
قربان جائیے ترے قربان جائیے
جانے نہ دوں گا آپ کو بے فیصلہ ہوئے
دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے
یہ تو بجا کہ آپ کو دنیا سے کیا غرض
جاتی ہے جس کی جان اسے جان جائیے
غصے میں ہاتھ سے یہ نشانی نہ گر پڑے
دامن میں لے کے میرا گریبان جائیے
یہ مختصر جواب ملا عرض وصل پر
دل مانتا نہیں کہ تری مان جائیے
وہ آزمودہ کار تو ہے گر ولی نہیں
جو کچھ بتائے داغؔ اسے مان جائیے
داغ دہلوی
داغ دہلوی

نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR