فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخم دل شرمندہ مرہم بھی ہوتے ہیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں
زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں
بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے
ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں
ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے
کہ یوں ہونے کو روشن گوہر شبنم بھی ہوتے ہیں
خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا
جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں
ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوا ہے عشق اے ناصح
جدائی کس طرح سے ہو جدا توام بھی ہوتے ہیں
نہیں گھٹتی شب فرقت بھی اکثر ہم نے دیکھا ہے
جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں
بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دست وحشت سے
کہیں ایسے گریباں دامن مریم بھی ہوتے ہیں
طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی
کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں
جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں
کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں
داغ دہلوی
داغ دہلوی

نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR