کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا

کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیاد آیا
میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
کوئی بھولا ہوا انداز ستم یاد آیا
کہ تبسم تجھے ظالم دم بیداد آیا
لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا
جذب وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا
کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشتر فصاد آیا
اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھا
داد لینے کے لیے حسن خداداد آیا
بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے
جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا
دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مرا خرمن برباد آیا
عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت
ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا
ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا
جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا
عید ہے قتل مرا اہل تماشا کے لیے
سب گلے ملنے لگے جب کہ وہ جلاد آیا
چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دل ناشاد آیا
دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو
منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا
غم جاوید نے دی مجھ کو مبارک بادی
جب سنا یہ کہ انہیں شیوۂ بیداد آیا
میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا
آج اس شوق سے ارمان سے جلاد آیا
شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا
جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا
لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا
داغ دہلوی
داغ دہلوی

نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR